a

Thursday, July 7, 2016

Hijab by Sabahat Rafique

Hijab by Sabahat Rafique


’’دادو آپ کو ایک دفعہ کہا گیا سمجھ میں نہیں آتا کیا؟؟؟ جب بھی میں باہر نکلنے لگوں تو حجاب حجاب کی رٹ لگا 
دیتی ہیں آپ؟ کہا نہ کہ مجھ سے نہیں لیا جاتا حجاب وجاب ۔‘ وہ جو بلیو جینز پہ سفیدفینسی ٹاپ پہنے ، براؤن شائن والے کمر کے نیچے تک آتے لمبے بالوں کی ٹیل پونی بنائے ، بازو پہ سفید ہینڈ بیگ ٹکائے اور دوسرے ہاتھ میں سیل فون تھامے، منہ میں چیونگم چباتے باہر جانے کے لیے ہال سے گُزرنے لگی تو ہمیشہ کی طرح اپنی دادو کے یہ الفاظ ’بیٹا حجاب لے کے باہر نکلا کرو ‘ سُن کے تو جیسے اُس کا پارہ ہائی ہوا تھا اور وہ پلٹ کے بدتمیزی سے مُخاطب ہوئی تھی ۔ ’اینڈ یو ناؤ واٹ ہم اپر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ، ہماری سوسائٹی میں یہ سب چلتا ہے آپ مما کو دیکھ لیں وہ بھی تو نہیں حجاب لیتیں اور نہ ہی کبھی پپا نے حجاب لینے کا کہا ہے ، مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ اپر کلاس میں رہتے ہوئے بھی آپ کی سوچ مڈل کلاس کے لوگو ں جیسی ہے ،تھینکس گاڈ آپ کی اپنی کوئی بیٹی نہیں ہے ورنہ تو آپ ایک بڑی سی ٹینٹ نما چادر ہمیشہ اُس کے گرد لپیٹا رکھتیں جس سے اُس بیچاری سے سانس لینا مُشکل ہو جایا کرتا اور وہ وقت سے پہلے ہی مر جاتی، بائے دا وے مجھے دیر ہو رہی ہے میرے فرینڈز میرا ویٹ کر رہے ہوں گے آپ اللہ اللہ کریں اور رہیں اپنے حجاب میں لپٹی اس چار دیواری کے اندر۔‘اُس نے بے ذاری سے کہتے باہر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ اور فیروزہ بیگم گُم صُم سی دوبارہ تسبیح پڑھنے میں مشغول ہو گئیں اور اُن کے دل نے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی پوتی کی عزت کی حفاظت کی دُعاپیش کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 فیروزہ بیگم حسن سکندر سے بیاہ کے سکندر پیلس تشریف لائیں تو اُنہوں نے اپنی خوش اخلاقی اور نیک فطرت سے جلد ہی سکندر پیلس کے لوگوں کا دل جیت لیا ، شادی کے ایک سال بعد حسن سکندر کا ٹرانسفر لاہور ہو گیا اور وہ اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ سے اپنی بیوی کے ساتھ لاہور شفٹ ہو گئے ،اُن کی شادی کے چار سال بعد زاویار حسن کی پیدائش پہ اُن کے آشیانے میں خوشیاں رقص کرنے لگیں ، وہ دونوں زاویار سکندر کو دیکھ دیکھ کے جیتے تھے ، وہ اُن کا اکلوتا بیٹا تھا اُنہوں نے اُس کی ہر خواہش پوری کی اعلیٰ اداروں میں اُسے تعلیم حاصل کروائی ، اور جب اُس نے اپنی پروفیشنل لائف میں قدم رکھا توفیروزہ بیگم اپنی بھتیجی کو زاویار کی دلہن بنا ہوا دیکھنا چاہتی تھیں لیکن زاویار نے اپنی کلاس فیلو سوزینہ علی کا نام لیا تو اُنہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی خوشی کے آگے اپنے بیٹے کی خوشی کو مقدم جانایوں وہ سوزینہ علی سے سوزینہ زاویار بن گئی اُن کی شادی کے دو مہینے بعد ہی حسن سکندر رضائے الٰہی سے چل بسے ۔ فیروزہ بیگم نے واپس گوجرانوالہ میں سیٹل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو سوزینہ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اگر آپ جانا چاہتی ہیں تو بخوشی جائیں لیکن ہم ادھر ہی رہیں گے ، سوزینہ کا تعلق ماڈرن فیملی سے تھا وہ روزانہ اپنے فرینڈز کے ساتھ شام کوگھر سے نکل جاتی اور رات گئے واپس آتی ، اور پھر سارا دن سوتی رہتی دوپہر کو اُٹھتی تو اپنے کاموں میں مصروف رہتی ، زاویار نے ایک دفعہ اُسے رات کو جلدی آنے کا کہا تو اُس نے طوفان برپا کر دیا ، ’تمہیں شادی سے پہلے میری ایکٹیویٹیز کا پتہ تھا نہ اگر تمہیں اعتراض تھا تو نہ کرتے شادی ، اور میں تمہارے لیے تو اپنی ایکٹیویٹیز چھوڑنے سے رہی ۔‘ اور پھر زاویار حسن نے اپنی زندگی کو پُر سکون رکھنے کے لیے اُسے اُس کے حال پہ چھوڑ دیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 وہ کمرے کی سجاوٹ دیکھ رہی تھی کہ اُسے دروازہ لاک کرنے کی آواز آئی ، اُس نے پیچھے مُڑ کے دیکھا تو زوہیب چہرے پہ مُکرو ہنسی سجھائے اُس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا کچھ انہونی کے احساس سے اُس کا دل دھڑکا تھا ، ’زیبی تم نے دروازہ کیوں لاک کیا ہے؟؟؟‘ اُس نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا تو زوہیب نے اُس کاہاتھ پکڑ لیا’ڈارلنگ اتنی بھی کیا جلدی ہے دروازہ بھی کھل جائے گا پہلے ذرا مجھے اپنی پیاس تو بُجھانے دو۔‘ اُس نے اُس کے قریب ہوتے ہوئے کہا تو اُس نے اچانک اُسے پورا زور لگا کے دھکا دیااور اُس کے قدم بے یقینی سے پیچھے کی طرف اُٹھنے لگے، اعتبار اس طرح ٹوٹے گا اُس نے سوچا بھی نہیں تھا ، آنسو اُس کی آنکھوں سے بہنے لگے اُس نے بہتی آنکھوں کے ساتھ انسان کی صورت میں شیطان کو اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا تو اُس کا دل کانپا تھا اُسے اپنی عزت ہاتھ سے نکلتی محسوس ہو رہی تھی اور پھر اس اندھیری رات کے بعد آنے والی صبح کا سورج اس کے لیے رُسوائی لے کے طلوع ہو گاانہی سوچوں اور بہتی آنکھوں کے ساتھ وہ دیوار کے ساتھ جا لگی وہ اُس سے چند قدم کے فاصلے پہ کھڑا اُس کی بے بسی پہ ہنس رہا تھا ایسے جیسے کہہ رہا ہو کہ آج تمہیں میرے ہاتھوں سے کون بچائے گا؟ یا اللہ تو اُس نے بے بسی کے عالم میں اللہ کو پُکارا تھا وہ اُس کے قریب آ گیا تھا اُس نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پہ لپیٹ لیے ، ’ اوہ سویٹ ہارٹ آج بہت شرم آ رہی ہے ، اور یہ آنسو کیوں میری جان ؟ بس کچھ گھنٹے تمہارے ساتھ گُزارنا چاہتا ہوں ہم اپر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ہماری کلاس میں تو یہ سب چلتا ہے ڈارلنگ۔‘ اُس نے اس کے چہرے پہ آئی آوارہ لٹوں کو اُس کے کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا ، آہ ۔۔ اُس نے سسکی لی کچھ گھنٹے پہلے اُس نے بھی یہ الفاظ بڑے فخر سے دہرائے تھے اُس نے اُس کے سینے پہ لپٹے بازو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی تو اُس نے اُسے دھکا دے کے اُدھر سے نکلنے کی کوشش کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تو اُس نے اُسے اپنے بازؤں میں دبوچ کے ایک گالی دی، ’ اب تو بہت پارسا بننے کی کوشش کر رہی ہو یہ جو نیک بی بی اب جاگ رہی ہے وہ تب کہاں ہوتی ہے جب تم جیسی لڑکیاں خود دعوت نظارہ بن کے دعوت دیتی پھرتی ہو لڑکوں کو ۔‘ ’ زیبی دیکھو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے جانے دو تم تو میرے دوست ہو نا میں تم پہ اعتبار کر کے تمہارے ساتھ آئی تھی پلیز اب میرے ساتھ ایسا تو نہ کرو ۔
 اُس نے اُس کے آگے گڑ گڑاتے ہوئے کہا لیکن وہ اُس کی بات سن کے قہقہہ لگانے لگا اور اپنا منہ اُس کے کان کے پاس لے جا کے بولا ، ’میری جان تم جیسی لڑکیاں ایسے ہی توآدھی رات کو جس کے ساتھ مرضی چل پڑتی ہیں تم لوگ اتنی معصوم تو ہوتی نہیں کہ پتہ نہ لگے آدھی رات کو کیوں تم لوگوں کو ہم بُلاتے ہیں
 تو آنسو اور تیزی سے اُس کی آنکھوں سے بہنے لگے اس نے بے بسی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اب اُس کا دل اللہ کے حضور گڑ گڑانے لگا اے اللہ تو ہی ہے جو مجھے اس شیطان کے چُنگل سے بچا سکتا ہے اے اللہ میری مدد کر ، اے اللہ میرے گُناہوں کو نہ دیکھنا اے اللہ اپنی رحمت کو دیکھتے ہوئے مجھ پہ رحم کر،اُس نے آنکھیں کھولیں تو اُس کی نظر اس کے دائیں طرف ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی کیز پہ پڑی تو وہ بولی ’ اوکے زیبی میں تمہاری بات مان لیتی ہوں لیکن پلیز مجھے بس دو منٹ دو میں اپنا حلیہ ٹھیک کر لوں ‘ اُس نے مُسکراتے ہوئے آنکھوں سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو اُس نے اُسے مُسکراتے ہوئے دیکھا تو اُسے چھوڑ دیا وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کے کھڑی ہوئی اور وہ بیڈ پہ تکیے سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیااُس نے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کے اپنے آنسو صاف کیے اور آئینے سے نظر آتے اُس کے عکس کو دیکھ کے وہ مُسکرائی اور پھر اُس نے پرفیوم اُٹھایا اور اُس کی طرف رُخ کر کے بولی ’ زیبی یو ناؤنہ کہ یہ پرفیوم میرا فیورٹ ہے تم لگاؤ نا مجھے اچھا لگے گا ‘ ’ آپ کو حُکم سر آنکھوں پہ جناب ‘ اُس نے سر کو خم دے کے کہا تو اُس نے بہت ہوشیاری سے اُس کی طرف بڑھتے ہوئے پرفیوم کا ڈھکن کھول دیا اور جب زوہیب نے پرفیوم لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اُس نے ڈھکن کھینچ کے سارا پرفیوم اُس کی آنکھوں میں انڈیل دیا اور پھر وہ برق رفتاری سے پلٹی اور ڈریسنگ ٹیبل سے کیز کو اُٹھایا تو وہ آنکھوں پہ ہاتھ رکھے بیڈ سے اُترتے اور اُسے ایک گالی دیتے ہوئے بولا ’ تم نے مجھے دھوکا دینے کی کوشش کی ہے تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں ‘ وہ جلن سے بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھ کے اُسے پکڑنے لگا تو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے سٹول سے وہ ٹکرایا اور اوندھے منہ گرا تھا اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس نے دروازہ کا لاک کھولا اور باہر نکل کے باہر کی طرف سے دروازہ کو لاک لگا کے وہ اُس گھرسے پاگلوں کی طرح بھاگی تھی بھاگتے ہوئے اُس کا پاؤں مڑ گیا درد سے اُس کی چیخ نکلی تھی اب اُس سے ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا جا رہا تھا اُس نے بہتی آنکھوں کے ساتھ سامنے دیکھا تو اُسے سی این جی سٹیشن نظر آیا تو و ہ لڑکھڑاتے ہوئے اُدھر تک آئی اور اُس نے اُدھر سے گھر کال کی فون فیروزہ بیگم نے اُٹھایا تھا، روتے ہوئے اُس نے اُنہیں ایڈریس بتاتے ہوئے گاڑی بھیجنے کے لیے کہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ فیروزہ بیگم کی گود میں سر رکھ کے سسک رہی تھی ’دادو مجھے معاف کر دیں پلیز دادو، آج یہ سب اسی لیے ہوا کہ میں نے آپ کی بات ماننا چھوڑ دی تھی ، آپ ٹھیک کہتی تھی لڑکیوں کو حجاب لے کے باہر نکلنا چاہئیے۔‘ وہ رُکی اُس نے اپنا سر اُٹھایا اور فیروزہ بیگم کے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولی

آپ کو یاد ہے نا جب میں چھوٹی تھی تو آپ نے مجھے حجاب لینا سکھایا تھا اور تب میں لیا بھی کرتی تھی تب مجھے حجاب لینا بہت اچھا لگنے لگا تھا لیکن پھر مما نے مجھے آپ سے دور رکھنا شروع کر دیا میں اپنی کزنز سے ملنے لگی اور پھر آہستہ آہستہ میں بھی اُن جیسی ہوتی گئی مجھے ماڈرن کپڑے پہننا اچھا لگنے لگا اور حجاب کے نام سے ہی گھُٹن کا احساس ہونے لگا، اس لیے جب بھی آپ مجھے حجاب لینے کا کہا کرتیں تو میں آپ سے بدتمیزی کیا کرتی ۔‘ وہ بات کرتے کرتے پھر رونے لگی تو فیروزہ بیگم نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھے جگ سے اُسے گلاس میں پانی انڈیل کے دیا اُس نے دو گھونٹ بھر کے گلاس واپس ٹیبل پہ رکھ دیا ۔ ’ آج جب ہم فرینڈز ڈنر کر رہے تھے تو مجھے زوہیب کی کال آئی وہ مجھے اپنا گھر دکھانا چاہتا تھا جو اُس نے نیو بنوایا تھا تو میں اُس کے ساتھ چلی گئی اور جب میں بیڈ روم دیکھ رہی تھی تو اُس نے اندر آ کے اندر سے دروازہ لاک کر دیا اور پھر آپ کی دُعائیں ہی تھیں کہ میں کچھ غلط ہونے سے پہلے ہی اُس کے ہاتھوں سے بچ کے نکل آئی ، ورنہ آج میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیروزہ بیگم نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اُس کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں ’ جو ہوا بھول جاؤ میری جان ، تم صحیح سلامت گھر واپس آ گئی ہو اللہ کا شُکر ادا کرو ، اور اپنے آپ کو بدل لو میری بچی، بیٹیوں کو چاند کی طرح نہیں ہونا چاہئیے جسے ایک دفعہ دیکھنے کے بعد بھی لوگوں کا بار باردیکھنے کو دل کرے ، بلکہ بیٹیوں کو تو سورج کی طرح ہونا چاہئیے اپنے گرد حجاب کی تپش لپیٹے ہوئے کہ اُن کی طرف نظر اُٹھتے ہی جھک جائے ۔ ‘ ’ میں سمجھ گئی ہوں دادو مسلمان عورت کی پہچان ہی حجاب ہوتی ہے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے کسی آیت کا ترجمہ سنایا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاکﷺ سے کہا تھا کہ اپنی بیبیوں سے کہو کہ وہ چادروں کا ایک کونہ اپنے منہ پہ ڈالیں رہیں تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور کافر لوگ اُن کو ستائیں نہ۔‘ فروزہ بیگم کی تو خوشی سے آنکھیں چھلک پڑیں کہ اُن کا پڑھایا گیا سبق آج بھی اُسے یاد تھا’ ہاں میری بچی سورۃ احزاب کی آیت ہے یہ۔

تو وہ اُن کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ’ دادو میں اللہ سے معافی مانگ لوں گی اللہ تو بہت رحیم ہیں نا وہ مجھے معاف کر دیں گے پھر دیکھنا میں حجاب لوں گی، میں ضوفشاں زاویار اپنے آپ کو اللہ کی پسند میں ڈھال لوں گی،انشاء اللہ ۔ ‘ اُس نے ایک عزم کے ساتھ کہا تھا تو فیروزہ بیگم بھی انشاء اللہ کہتے ہوئے مُسکرا دیں کیونکہ وہ جانتی تھیں صبح کا سورج ایک نئے عزم کے ساتھ طلوع ہو گا اور اُن کے آشیانے کو روشنی سے بھر دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ختم شُد

No comments:

Post a Comment