تشنگئ کلام
ابیحہ نور
جتنی بهی ختم کرنے یا مٹانے کی کوشش کروں میری تشنگی میری پیاس اتنی ہی تیزی اور شدت سے بڑهتی جاتی ہے. میں قلم کی بے تابیاں کم کرنے میں ناکام رہ جاتی ہوں. یہ اپنی پوری آب و تاب کیساته اپنی تڑپ کو کاغذ جیسے حسین اور مخلص دوست کے سپرد کرنے کی ضد کرنےلگتا ہے. کہ نہ جانے میرے قلم کی جنبش سے میری تشنگی کی شدت سے میرے ہر ہر لفظ سے رستے آنسووں سے کسی کا دل پگل جائے اور انسانوں کے دلوں میں جرم پہ نادم کرنے والے احساسات و جزبات رقم ہو جائیں.انسانوں کے دلوں میں بهی خوبصورت احساس پیدا ہوں اور تیرا یا میرا ختم کر کے انسانیت کےدکه و کرب میں یکجا ہو کر ہمارا کرب کہنے میں کامیاب ہو جاوں.
لیکن کس کس سے کہوں ؟؟؟
میں کس کس کے آگے رووں ؟؟؟
کون پڑهے گا میرے کے الفاظ؟؟؟
کس کو سمجه آئے گی میری تشنگئ کلام....؟؟؟
کس کو نظر آئیں گے میرے لفظوں سے رستے آنسو....!!!
آج آدم کا بیٹا ایک کهلونے سے بہت کهیلتا ہے اس کو یہ کهلونا بہت پسند آ گیا ہے. وہ اس کهلونے سے کهیلتا ہے. دل بہلاتا ہے. وقت گزاری کرتا ہے. لیکن جب دل بهر جاتا ہے. اس کهلونے سے اکتا جاتا ہے تو اسے توڑ ڈالتا ہے. پهڑ ڈالتا ہے اور سسکنے کیلئے چهوڑ دیتا ہے. آنکهوں سے گرم آنسو بہتے ہیں. میرے دل سے لہو رستا ہے. دکه و کرب کا سمندر تهمنے کا نام نہیں لیتا یہ جان کر کہ اس قدر غیر محفوظ اور غیر اہم رہ گیا ہے وہ کهلونا جس کی پرورش کسی نے بہت محبت سے کی تهی. جس کی آنکه بهرنے نہیں دی جاتی تهی. جس کے منہ سے نکلنے سے پہلے اس کی ہر خواہش پوری کر دی جاتی تهی. آ سو تهمتے نہیں دل کی تڑپ بڑهہ جاتی ہے کہ وہ کهلونا عام نہیں.... ہاں وہ کهلونا عام نہیں لیکن آدم کے بیٹے کو وہ عام لگتا ہے!! کیونکہ وہ بنت حوا کا دل ♡ ہے. پهر اس کے ٹکڑے سمیٹتی حواء کی بیٹی کا ایک ایک آنسو اس کے دل کی روداد سناتا ہے. اور گهٹی گهٹی سی آواز ابهرتی ہے.
ٹکڑوں میں جو بکهر گیا
شیشہ نہیں وہ میرا دل تها
آج اس شیشے جیسے شفاف دل کےٹوٹنے کی آواز کہیں سے نہیں ابهرتی لیکن رات میں سسکیاں ضرور سنائ دیتی ہیں. پہلے دل کو خوابوں سے ،محبتوں سے، امنگوں سے، ایک خوبصورت و دلکش نگینے کی طرح بنتا ہے. جب خوابوں کا یہ محل بنت حوا کی آنکهوں کو جگمگانے لگتا ہے. اس کے دل میں محبتوں کا پودا ایک تن آور درخت بن جاتا ہے. جب وہ حقیقت سے نکل کر آدم کے بیٹے کے بارے میں اپنے دل پہ اعتبار کی گرہیں باندهے اور اس کی مردانہ وجاہت کی کشش کو آنکهوں میں چهپائے اس کی خوابیدہ محبت کی پٹی آنکهوں پہ باندهہ لیتی ہے اور اس شیشے کے ارمان لے کے محبت کے محل میں قدم رکه دیتی ہے. تو پهر صرف خوابوں کے ٹوٹنے کی آوازیں ہی نہیں آتی بلکہ ان آنکهوں سے موتی بهی بہتے ہیں اور دل سے خون رستا ہے لیکن ان سب حقیقتوں سے بے خبر حوا کی بیٹی شیشے کے محل کی ظاہری خوبصورتی کو دیکه کر اس پہ مر مٹتی ہے. اس بات سے بے خبر کہ اس محل کی ہر دیوار شیشے کی ہے اور شیشہ بس لہو لہان کرتا ہے مرہم نہیں لگاتا....
لیکن مزید حیرت انگیز اور غور طلب بات یہ کہ آدم کا بیٹا یہ کهیل بہت مہارت سے کهیلتا ہے اور عجیب لائحہ عمل تشکیل دیتا ہے. لیکن اس نے اس کهیل کی ترکیب اس میں مہارت حاصل کرنے کیلئے اس نے کہیں سے ڈگری یا باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ اس کهیل میں مہارت اسے اس کے نفس نے دی ہے. یا شاید بنت حواء کی معصومیت نے یہ مہا نشتر اس کے ہاته میں تهما دیا تا کہ وہ با آسانی اسے توڑ پهوڑ سکے. اور اپنی ہی نظروں میں اپنی قدر و منزلت کهو بیٹهے. اس کهیل میں بهی دنیا عام کهیلوں کی طرح ایک ہی فریق جیتتا ہے. عجیب ہے کہ ہر بار جیت اسی فریق کی ہوتی ہے بس ایک ہی جیتے والا ہر بار جیت جاتا ہے کیونکہ آدم کے بیٹے نے ہارنا نہیں سیکها. دنیا کی پہلی جنگ کی جیت کا سہرا بهی آدم کے بیٹے کے سر ہے. کسی حواء کی بیٹی کے نہیں.
ایک کهلونا توڑتا ہے پهر یہ اگلے کهلونے کی تکاش میں نکل پڑتا ہے اس بات سے بے خبر کہ پچهلا کهلونا ابهی تک زخم بهرنے کی کوشش میں ہے. سسکیاں ہلک میں ہی دم توڑ جاتی ہیں. کیونکہ زندگی تو ہر حال میں جینی ہی پڑتی ہے.
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کهیل کو کهیلنے کیلئے میدان دونوں فریقین کے والدین چهوٹی چهوٹی عمر میں ہی بچوں کے ہاتهوں میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت دے کر مہیا کرتے ہیں. پهر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچه پهول بهی ٹوٹ جاتے ہیں اکثر کلیاں بهی مرجها جاتی ہیں. اور بعض تو زندگی کو اپنے ہی ہاتهوں سے قتل کر ڈالتے ہیں.
آج نواجوان نسل غیر مزہب کی پیروی کرتے ہوئے خود کو لہو لہان کر رہی ہے رشتوں کو ان کے تقدس کو پامال کر رہی ہے. مستقبل کو پس پشت ڈال کر خواہش نفس کی پیروی میں غلطاں نظر آتی ہے.
میرا دل تڑپ جاتا ہے یہ سوچ کر کہ کیسے اس کی ماں کا کلیجہ پهٹ گیا ہو گا کیسے اس کے باپ کے کندهے جهک گئے ہوں گے. کیسے اس کا بهائ معاشرے میں گردن اٹهانے کے قابل نہ رہا ہو گا.میری آنکهوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں جزبات تڑپ جاتے ہیں احساسات لا چاری میں جلتے رہتے ہیں اس وقت جب مجهے یاد آتی ہے وہ لڑکی جس نے محبوب سے دهوکہ کهایا اور خود کشی کر لی. مجهے یاد آتی ہے وہ لڑکی جو گهر میں جهوٹ بول کر محبوب سے ملنے گئ اور اجتماعی جنسی درندگی کا شکار ہو کر چهت سے چهلانگ لگا کر مر گئ. مجهے یاد آتی ہے وہ محبت جس میں عزت نہیں بلکہ کوٹ کوٹ کر زلت ہی بهری ہے.
محبت کچھ نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
بچاؤ خود کو اے لڑکیو! محبت کچھ نہیں ہوتی,
فقط اک سراب ہے دھوکہ ہے٬
محبت کے نام پر ابن آدم٬ فقط تم تک رسائی چاہتے ہیں٬
دیکھو کہیں اس جھوٹ کی خاطر٬
کسی نامحرم کی دل لگی کی خاطر٬
اپنے کردار٬ اپنی حیا اور ماں باپ کے وقار کو داؤ پر مت لگا دینا٬
چند لمحوں کی تسکین کی خاطر وہ٬ تمہاری متاع چھین لیتے ہیں٬
لڑکوں کو کون پوچھتا ہے بہنا؟؟
عزتیں تمہاری نیلام ہوتی ہیں٬
کوئی لاکھ منفرد لگے٬ حسین و دلکشیں لگے٬
بس بات اتنی سی یاد رکھنا٬
مرد سب ایک سے ہیں٬
سب کی فطرت ایک جیسی ہے٬
یہ محبت کے نام پر٬ فقط تم تک رسائی چاہتے ہیں!!!
میری ہر حواء کی بیٹی سے اپیل ہے. خود کی حفاظت کرو محبت کرنی ہے تو خود سے کرو. محبت کرنی ہے تو والدین سے کرو. ان کی عزت سے کرو. محبت کرنی ہے تو بهائیوں سے کرو جن کی غیرت ہو تم جن کے مان ہو تم محبت کرو خود سے اپنی عزت سے محبت کرو. اس فریب سے نکلو. تم کو محبت اور عزت کوئ نہیں دے سکتا تمہارے شوہر سے زیادہ کوئ تحفظ بهی نہیں دے سکتا. سمندر کی سپ میں چهپے موتی کی طرح خود کی حفاظت کرو خود کو محفوظ رکهو محرم محبت کیلئے اس کیلئے سجنا سنورنا نامحرم بهیڑیے گلی کے کوچوں میں پهرتے ہیں تماری پاکیزگی پہ جهپٹنے کیلئے خود کو حجاب حدود اللہ کی حفاظت میں چهپا لو. خدارا خود سے محبت کرو.
اے آدم کے بیٹے! ہمیں علم ہے کہ تم زور آور ہو. تم عقل مند ہوں. ہواوں کا رخ موڑ سکتے ہو. تم قسمت کو بدل سکتے ہو. اللہ نے تم کو طاقتیں عطا کی ہیں. لیکن اپنی غیرت کو زندہ رکهو. جو تمہیں اپنی بہنوں کی حفاظت پہ ابهارتی ہے. اپنے گهر کی عزت کیطرف اٹهنے والی ہر بری نظر کے آگے پہاڑ کی طرح کهڑی ہو جاتی ہے. اس غیرت کا پاس رکها کرو غیر عورتوں کو بهی پاکیزگی کی نظر سے دیکها کرو. عورت کو اسلام نے عزت دی ہے تم کون ہوتے ہو اسے پامال کرنے والے؟؟؟ یاد رکهو یہ دنیا مکافات عمل پہ چلتی ہے. آج کسی کو دهوکہ دو گے تو یہ کسی اور کے زریعے تم تک چل کر ضرور آئے گا. عزت کرو اور عزت کروانا سیکهو.
اللہ تمام نوجوانوں کو ہر قسم کے ظاہری و باطنی فتنوں سے محفوظ رکهے آمین
*****************
ختم شد
No comments:
Post a Comment