" گنجِ
ایشیا "
جنوبی
ایشیا میں "پاکستان اور بھارت" گنجِ ایشیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ برصغیر
پاک و ہند کو اس لیے دو ملکوں میں تقسیم کیا گیا کہ دو الگ قوم و مزہب کے لوگ امن
وسکون سے رہ سکیں۔ یوں تو صدیوں سے "مسلمان اور ہندو" پیار ومحبت رہتے
آئے ، ایک دوسرے کے احساسات اور جزبات کی قدر اور احترام کرتے آئے جو اب تک بھی
ہے۔ نفرت کی آگ تو بیرونی عناصر نے لگائی جس بنیاد پر انتشار پھیلا اعر ہزاروں اور
لاکھوں جانیں صرف اس لیے قربان ہوئیں کہ تمام لوگ خود کو بہتر ثابت کر سکیں اور
پہلے کی طرح انکے معاشرے چمن و گلزار بنے رہیں لیکن بےسود۔ پاکستانی اور ہندوستانی
عوام کے درمیان محبت اور خلوص کی کئی مثالیں و داستانیں اب تک ملتی رہی ہیں اور
جاری رہیں گی۔ اسکا ثبوت تاریخ لکھتی ہے کہ آزادی کے دوران ہندو ، سکھ، اور
مسلمانوں نے اہنی اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دوستوں کو بحفاظت سرحد عبور
کروائی۔ یہاں تک کہ جان، مال اور عزت پر کوئی آنچ نہ دی۔ کئی دہائیوں تک بزریعہ
خطوط ایک دوسرے کا حال جانتے اور اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ
کچھ دشمن عناصر کی سازش کی وجہ سے بیشتر مقامات پر کچھ گروہ سرگرم ہوئے اور دونوں
طرف جانی ومالی نقصان سہنا پڑا۔ اس سب کے باوجود آج بھی دونوں ملکوں کی عوام الفت
رکھتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انسانیت کے دشمن دونوں ملکوں میں نفرت کی آگ کو
ہوا دے دیتے ہیں اس طرح دوری مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہندو ہوں یا مسلمان دونوں اب بھی
اپنے اپنے مزاہب اور خاندان کے سرحد پار پیاروں سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں، کئی
باراتیں دونوں اطراف آتی جاتی رہتی ہیں۔ قدرت نے اسی بہانے ہمیں جڑے رہنے کا بار
بار موقع دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد دونوں ممالک کی جانب سے
ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں کی امن والفت کا دائرہ اتنا وسیع ہوجائے کہ سبھی خوشی خوشی
آجاسکیں۔ سیاح اس موقع کے منتظر ہیں کہ کب وہ دن آئے گا جب آسانی سے اجازت ملا کرے
گی کہ جاؤ دیکھو قدرت کے رنگ، ان رنگوں میں دہلی، سوات، اجمیرشریف، چمن، کشمیر،
مری، مبئبی، ناران، کاغان، قطب مینار، تاج محل اور سب سے قابل ذکر جگہ میگھالیہ
(ماسن رام) اور چیرا پونجی(سوہرا) ہیں جہاں سب سے زیادہ نہمی پائی جاتی اور سال
بھر بارش رہتی ہے۔ سیاحوں کیلئے یہ بہت دلچسپ جگہیں ہیں۔ امن وامان کی صورت میں
دونوں سرحدوں کی اطراف میں موجود لوگ کئی فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment